Amazon Jungle Boiling River | ایمیزون کا ابلتا دریا جو بھی داخل ہوتا ہے اسے مار ڈالتا ہے
Amazon Jungle Boiling River
ملک پیرو کے اندر آمیزون جنگلات میں ایک انتہائی غیرمعمولی حیران کن قدرتی عجوبہ ہے، یعنی ایک ایسا غضب ناک دریا جس کا پانی ابلتا رہتا ہے۔جی ہاں واقعی یہ دنیا کا سب سے انوکھا دریا ہے جس گرنے کی صورت میں چند سیکنڈمیں موت ہوسکتی ہے۔سدرنمیتھوڈسٹ یونیورسٹی کے محقق اڈریس ریوزو نے اس دریا کے بارے میں مختلف انکشافات کیے ہیں۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس دریا کا پانی 200 ڈگری فارن ہائیٹ پر ابلتا رہتا ہے اور اس کے کنارے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی حمام میں ہے جہاں بھاپ سے گرمائش کا کام لیا جاتا ہے۔اس طرح کا درجہ حرارت قدرتی آتش فشاں وغیرہ میں تو ہوتا ہے مگر کسی دریا کے پانی میں ایسا ہونا اتنہائی غیرمعمولی ہے اور بغیر کسی ذریعے یعنی متحرک آتش فشاں کے بغیر کوئیدریا اتنا گرم اور پانی ابلتا نہیں۔اس دریا کا نام Mayantuyacu ہے جو وسطیپیرو میں واقع ہے اور مشرقی شہر Pucallpa سے یہاں تک پہنچنے میں 4 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔چار میل لمبے اس دریا کی گہرائی مختلف مقامات پر 6 فٹ جبکہ چوڑائی 80 فٹ تک ہے۔اس کے پانی کا درجہ حرارت 186 ڈگری فارن ہائیٹ ہے جو ایک عام کافی کے کپ سے بھی زیادہ گرم ہوتا ہے۔117 ڈگریفارن ہائیٹ گرم ہونے پر پانی تکلیف دہ اور خطرناک ثابت ہوتا ہے اور محقق کے مطابق اس دریا میں اپنا ہاتھ ڈالا جائے تو آدھے سیکنڈ میں تھرڈ ڈگری کی حد تک جل جائے گا اور اس میں غلطی سے گرجانے پر موت سےبچنا ناممکن ہے۔اس مینڈک سے بھی یہی غلطی ہوگئی اور وہ پانی میں گرتے ہی ہلاک ہوگیا۔یہاں کا پانی اتنا گرم ہے کہ مقامی افراد اسے چائے بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ابلتے ہوئے دریا دنیا میں دیگر مقامات پر بھی ہیں مگروہ کسی متحرک آتش فشاں یا مقناطیسی سسٹم سے منسلک ہیں مگر پیرو کے اس دریا کے قریب اگر کسیآتش فشاں کو دیکھا جائے تو وہ 400 میل دور ہے۔کسی کو نہیں معلوم کہ یہ دریا اتنا گرم کیوں ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایسا ابھی نہیں سینکڑوں برس سے ہے۔
Duniya ka pur asraar tareen ilaqa jahan marna mana hai
Malomati Videos 2021
Malomati Videos 2021 |
یہاں مرنا منع
ہے، ایسا گائوں جہاں مرنے پرحکومت جرمانہ عائد کر دیتی ہے اور بیمار اور قریب
المرگ افراد کو نکال دیا جاتا ہے وجہ ایسی کہ جان کرآپ کے ہوش ہی اڑ جائیں گے
ناروے کے سرد ترین پہاڑے قبضے لونگ ائیر بائن کی انتظامیہ نے قصبے کی حدود میں لوگوں کے مرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ قریب المرگ اور بیماری افراد اور ان کے لواحقین کو مطلع کر دیا گہا ہے کہ جتنی جلد ہو سکے مرنے کیلئے کسیاور علاقے میں چلے جائیں۔ اگر وہ اس قصبے میں وارننگ کے باوجود مر گئے تو حکومت مرنے والوں کے لواحقین پرجرمانہ عائد کر دے گی۔ جبکہ قصبے کی حدود میں تدفین پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ لونگ ائیربائن میںچونکہ اوسطاََ درجہ حرارت منفی 18سے 20ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اس لئے مدفون لاشیں سو سال تک بھی گل کر خاک نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ برس ہا برس پرانی’’تازہ لاشیں‘‘کھانے کیلئے جنگلی جانور اکثر مقامی قبرستان پر یلغار کردیتے ہیں۔ ان کی ’’ضیافت‘‘سے بچ جانے والی لاشیں نہ صرف وبائی امراض پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں بلکہ دیکھنے والوں پر قصبے کا اچھا تاثر بھی نہیں چھوڑتیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل آن لائن نے ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسکینڈے نیو بن ملک ناروے کا پہاڑی قصبہ لوگ ائیر بائن انتہائی خوبصورت اور دلکش نظارے لئے ہوئے ہے۔ یہاں ملکی و غیر ملکی سیاح جوق در جوق آتے ہیں۔ تاہم اب قصبے کی انتظامیہ نے مقامی افراد اور سیاحوں کو متنبہ کر دیاہے کہ یہاں مرنا منع ہے۔ اس حسین جگہ پر مرنے والے کے لواحقین کو نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا بلکہ میت کو دفن کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ نارویجن قصبے میں مرنے پر پابندی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مقامیمیڈیا نے بتایا ہے کہ شدید سردی کے سبب قصبے میں دفنائی جانے والی لاشیں کئی دہائیوں تک ’’ڈی کمپوز‘‘رہتی ہیں۔ یعنی یہ گل کر خاک میں مل کر خاک نہیں ہوتیں۔ گزشتہ 78سال کا ریکارڈ بتاتا ہےکہ یہاں دفنائی جانے والی لاشیں اب تک سلامت ہیں۔ اس وجہ سے انہیں کھانے کیلئے جنگلی جانور اکثر قبرستان پر یلغار کرتے رہے ہیں۔ کچھعرصہ قبل جنگی جانوروں کے ایسے ہی حملے کے بعد درجنوں ادھ کھائی لاشیں قبروں کے باہر پائی گئی تھیں۔ یہ منظر دیکھنے والے افراد نے سرکاری حکام اور پولیس سے رابطہ کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ حکومتی اداروں نے صورتحال کی سائنسی توجیہہ کیلئےماہرین کا پینل ترتیبدیا اور سفارشات مانگیں تو ان کو کہاگیا کہ چونکہ شدید سردی کے سبب یہاں دفنائی جانے والی لاشیں گلتی سڑتی نہیں اس لئے جانوروں نے دھاوا بول کر لاشیں کھال لیں۔ مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ پچھلےکئی ادوار میں بھی جنگلی جانوروں نے مدفون لاشون کا یہی حشر کیا تھا۔ چنانچہ مقامی حکام نے ابتدائیمرحلے میں یہاں لاشیں دفنانے پر پابندی عائد کی اور اب مرنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اگر وہ مرنے اور تدفین پر پابندی عائد نہ کریں تو لاشوں سے نکلنے والے نامیاتی اجاز سے قصبے میں مہلک وائرس اور جراثیموں کی بھرمار ہو جائے گی کیونکہ ماہرینکے تجزئیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک صدی پرانی لاشوں سے اسپیشن وائرس یا اسپیشنش فلو کے اثرات، بخارات کی شکل میں قصبے میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سےقصبے کی ڈھائی ہزار کی آبادی کا سروے مسلسل کیا جاتا ہے اوربیمار و قریب المرگ افراد کو قصبے میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جو بیماری لوگ اصرار کر کے یہاں رہائش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ایک حلف نامہ بھرنا پڑتا ہے کہ موت کی صورت میں ان کے لواحقین میت کو کسی اور شہر میں دفنائیں گے۔